
پاکستان میں موبائل فون کی فروخت میں کمی!
مقامی اسمبلنگ میں اضافہ اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی ضرورت:
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق، مالی سال 2024-25 میں عالمی اور مقامی
برانڈز نے مجموعی طور پر 3 کروڑ سے زیادہ موبائل فونز فروخت کیے، جو پچھلے سال کے 3.4 کروڑ یونٹس سے تقریباً 12 فیصد کم ہیں۔
اس عرصے میں مقامی طور پر تیار شدہ موبائل فونز کی فروخت بھی کم ہو کر 28.28 ملین یونٹس رہ گئی،
جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 32.55 ملین تھی۔
اسی دوران، موبائل فونز کی درآمد 1.73 ملین یونٹس تک محدود رہی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ کمی ہائی بیس اثرات اور طلب میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے،
خاص طور پر جب ہینڈ سیٹس پر ٹیکس میں تبدیلی کے باعث غیر معمولی طلب دیکھی گئی تھی۔
صارفین کی جانب سے موبائل فونز بدلنے کے دورانیے میں اضافہ بھی ایک اہم سبب ہے،
کیونکہ نئے ماڈلز کی کمی اور غیر پرکشش لانچز کی وجہ سے مارکیٹ میں دلچسپی کم ہو گئی ہے۔
وفاقی وزارت صنعت و تجارت کے مطابق، ملک میں تقریباً 94 فیصد موبائل فونز کی طلب مقامی طور پر
اسمبل اور تیار شدہ مصنوعات سے پوری ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے،
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے آئی ٹی کے
کنوینر خوشنود آفتاب نے زور دیا کہ مقامی اسمبلرز ٹیکنالوجی کی منتقلی، ہنر مند روزگار کے مواقع اور
غیر ملکی زر مبادلہ کے بچاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر آلات کی مقامی اسمبلنگ کو
فروغ دے تاکہ ملک میں تکنیکی ترقی کو سرعت دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی معاشی
ترقی کے لیے ٹیکنالوجی اور جدید اختراعات کا حصول بہت ضروری ہے،
کیونکہ بغیر تکنیکی ترقی کے ملک عالمی معیشت میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پی ٹی اے کے مطابق،
2025 کے پہلے چھ ماہ میں سب سے زیادہ اسمبل ہونے والے 10 مقامی برانڈز میں
– وی گو ٹیل
– انفنکس
– آئی ٹیل
– ویوو
– شیاؤ می
– سام سنگ
– ٹیکنو
– جی فائیو
-نوکیا
– کیو موبائل شامل ہیں، جن کی تیار کردہ یونٹس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ماہر مالیات ابراہیم امین نے کہا کہ پاکستان میں موبائل فونز کا وسیع استعمال معاشرے میں
ٹیکنالوجی اور مالیاتی خدمات کی قبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا
کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مالیاتی اور ٹیکنالوجی سے آگاہی مہمات چلائیں تاکہ
تعلیم
صحت
حکومتی خدمات
ڈیجیٹائزیشن
اور کیش لیس معیشت میں بہتری لائی جا سکے۔