ایم کیو ایم لندن کی واپسی ہوگئی ہے، الطاف حسین کو سیاسی آزادی مل گئی ہے

Spread the love

جلد ہیلو کی آواز بھی آجائے گی

ایم کیو ایم پاکستان تو گیو

یہ سارے لوگ جلد ملک سے بھاگ جائیں گے

کراچی میں الطاف حسین کے حق میں بینرز کیا لگے افواہوں کا بازار ہی گرم ہوگیا۔۔۔۔

جتنے منہ اتنی باتیں لیکن بینرز اتر گئے یا یوں کہہ لیجیے اتروادیے گئے لیکن پیچھے بہت سارے سوال چھوڑ گئے
پاکستان کی سیاست بانجھ ہے بچے جننے کی صلاحیت سے محروم ہے اور جب کوئی اس صلاحیت سے محروم ہو لیکن اسے اولاد کی ضرورت ہو تو وہ کسی اور کے بچے گود لے لیتا ہے پاکستان کی سیاست کچھ ایسی ہی ہے جس طرح بے اولاد جوڑے ایدھی کے جھولے سے بچے گود لے لیتے ہیں اسی طرح قیام پاکستان کے بعد سے سیاست دانوں کو گود لیے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سیاست دان گود لیے جاتے ہیں، پالے اور پوسے جاتے ہیں ان کا قد بڑھایا اور کبھی ضرورت کے مطابق گھٹایا جاتا ہے کبھی کسی بیورو کریٹ کو وزیراعظم ہاوس کے راستے پھانسی گھاٹ تک پہنچادیا جاتا ہے تو کوئی لاہور میں پھجے کے پائے کھاتے کھاتے وزیراعظم بن جاتا ہے اور پھر نااہل سے اہل ہو کر بھی اہل نہیں ہوپاتا۔

المیہ

لیکن اس بانجھ سیاست کا ایک اور المیہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب گود لیا یہ بچہ بالغ ہوجاتا ہے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یا تو واپس لوٹ جاتا ہے یا پھر لوٹا دیا جاتا ہے، ذوالفقارعلی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان اس کی مثال ہیں جس نے جب خود کو کھلاڑی سمجھا وہ ٹیم سے ہی نہیں نکال دیا گیا۔

الطاف حسین بھی ایک ایسے ہی سیاست دان ہیں جو بالغ ہونے کے بعد ایسے لوٹے کہ کہ پھر لوٹ ہی نہ سکے لیکن ان دنوں ان کی واپسی کی پھر باتیں ہورہی ہیں اور شہر میں کچھ ایسا ہوا بھی ہے جو ان افواہوں میں کہیں کہیں حقیقت کا رنگ بھرتا نظر آرہا ہے۔ الطاف حسین نے دسمبر 2024 میں ملکی سیاست میں تبدیلی کا اشارہ دیا تھا اور اس وقت تجزیہ یہی تھا کہ امریکی سیاست میں آنے والی تبدیلی پاکستانی سیاست پر ضرور اثر انداز ہوگی اور الطاف حسین بھی اسی تبدیلی کی بات کررہے ہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ امریکی سیاست نے پاکستان پر اثرانداز ہونا شروع بھی کردیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی کی جانب سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ سامنے آچکا ہے اور ایم کیو ایم لندن نے اس صورتحال میں اپنے لیے بھی ونڈو تلاش کر ہی لی۔

الطاف حسین کے کے جنوری 2025 میں تبدیلی کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ردعمل دیکھنے میں آیا تھا لوگوں نے اسی وقت 2025 میں الطاف حسین کی واپسی کی باتیں شروع کردی تھیں بعد میں ایم کیو ایم لندن کی طرف سے الطاف حسین کے اس بیان کی کچھ وضاحت بھی کی گئی لیکن حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے اس سے لگتا تو ہے کہ کہیں کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے

زیر زمین سرگرمیاں

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم لندن کی زیر زمین سرگرمیاں کافی عرصے سے جاری ہیں لیکن کچھ عرصے سے اس میں تیزی آگئی ہے تنظیمی کام کو پھیلایا جارہا ہے پرانے کارکنوں سے رابطے اور نئے خون کو شامل کیا جارہا تھا سب اس بات کیلئے پرامید ہیں کہ جلد ہی ہیلو کی آواز سنائی دے گی اور اس مقصد کیلئے عدالتی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں لیکن ایک سوال سب کے ذہنوں میں ہے جو آپس میں کیا جاتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم لندن کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے گی لیکن اس سوال کا جواب کارکنوں کے پاس تو نہیں ہے لیکن چند افراد کے پاس ضرور ہے۔

الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن کے حوالے سے کہیں برف پگھلی ضرور ہے کیونکہ 9 دسمبر 2024 کو جب ایم کیو ایم لندن کی اپیل پر یوم شہدا منایا گیا تو پہلی بار گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن مقدمات نہیں بنے اور گرفتار کیے گئے افراد کو چھوڑ دیا گیا حیدرآباد میں بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال ہے جہاں ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں نے ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ اس بار کچھ نیا یہ ہوا ہے تقریبا 9 سال بعد شہر میں الطاف حسین کے بڑے بڑے بینرز لگادیے گئے اور اس کے لیے جو جگہ چنی گئی اس کا انتخاب بھی نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا الطاف حسین کی رہائشگاہ المعروف نائن زیرو کے قریب عائشہ منزل کا مقام، ایک ایسا علاقہ جو کبھی ایم کیو ایم کا مرکز سمجھا جاتا تھا جبکہ ایک اور بینر شہر کے قدیم اور انتہائی مصروف تجارتی و کاروباری علاقے برنس روڈ پر لگایا گیا اور یہی نہیں کراچی اور حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں الطاف حسین کے نام کی بڑے پیمانے پر چاکنگ بھی کی گئی ہے۔

الطاف حسین کی واپسی کی افواہیں: کیا حقیقت بنے گی؟

پاکستانی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر نیا آنے والا جس سے عوام کچھ امیدیں باندھ لیتے ہیں وہ عوام کا وہ حشر کرتا ہے کہ انہیں کسی پرانے کی یاد آنے لگتی ہے پچھلے دنوں اس بات پر بہت زیادہ حیرانی ہوئی جب ایک صاحب کو ایوب خان کا زمانہ یاد کرکے اس کی تعریفیں کرتے سنا کراچی یا یوں کہہ لیجیے کہ سندھ کے شہری علاقوں کا بھی یہی مسئلہ ہے وہ لوگ جو ایم کیو ایم کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے تھے اور جنہوں نے الطاف حسین پر پابندی کو ویلکم کیا تھا آج کراچی کے حالات دیکھ کر الطاف حسین اور اس وقت کی ایم کیو ایم کو یاد کرتے ہیں۔ اس میں ایک طرف ایم کیو ایم پاکستان ذمے دار ہے تو دوسری طرف بڑا کردار پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے جس کی مہربانی سے آج کراچی کا حال کسی اجڑے دیار جیسا ہے جس شہر میں ہفتہ صفائی منایا جاتا تھا وہ کراچی کچراچی میں بدل چکا ہے۔ شہر کے اکثر علاقے پانی، بجلی اور گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ جس شہر میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا ایک جال بچھایا گیا تھا وہاں آج ایک ایسی سڑک ڈھونڈنا مشکل ہے جس پر ایک کلومیٹر بغیر کسی گڑھے کے ڈرائیو کی جاسکے اس شہر کی ایک شاہراہ پر بننے والا ریڈ لائن کا منصوبہ تو جلد گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بناتا نظر آرہا ہے.

خیر واپس آتے ہیں الطاف حسین پر جنہیں آج کراچی کے شہری دل سے دوبارہ یاد کرر ہے ہیں اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ جو بھی ہوگا وہ اگلے دس سے بارہ دن میں ہو گزرے گا ایم کیو ایم لندن دوبارہ منظم ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لندن نئی صف بندی کیلئے تیار ہے ماضی کی طرز پر دس سے بارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کا اعلان کیا جاسکتا ہے جو تنظیمی معاملات کو لے کر آگے چلے گی اس میں اگر ایک طرف لندن میں موجود دو افراد کا کلیدی کردار ہوگا تو ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکا میں ایک اوبر ڈرائیور جن کی 24 ہزار سے زائد رائیڈز ریکارڈ پر ہیں وہ بھی نئے سیٹ اپ میں اہم ذمے داریوں کے ساتھ لوٹیں گے میں نے ان سے فون پر ان کا موقف لیا تو وہ بھی کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی صورتحال پر پریشان ضرور نظر آئے لیکن انہوں نے ایم کیو ایم لندن سے رابطوں کی تردید کردی انہوں نے کہا کہ 2017 سے ایم کیو ایم لندن سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے میں نے بعض اختلافات کی وجہ سے جب کنارہ کشی اختیار کی تھی اس کے بعد دوبارہ کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا میں مصطفی کمال نہیں بن سکتا تھا اس لیے خاموش ہو کر بیٹھ گیا اگر کچھ ہوا تو میرے ٹوئیٹر اکاونٹ سے سب کو اطلاع مل جائے گی۔

اوبر ڈرائیور کے پاس بھی ایم کیو ایم لندن کی واپسی کی خبریں تو ہیں اور وہ اسے ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں سے جوڑتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو یہ حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں ہوگا۔ پی ٹی آئی کو کمزور یا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایم کیو ایم لندن کو اسپیس دیا جاسکتا ہے۔

ایم کیو ایم لندن کو پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کیلئے واپس لایا جارہا ہے یہ تصویر کا ایک ایسا رخ ہے جس پر پہلے بھی بات کرچکا ہوں کیونکہ پاکستانی سیاست میں ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ بات جب میں نے ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر مصطفی عزیز آبادی کے سامنے رکھی تو انہوں نے نہایت محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے ہمارا اپنا کاز ہے جس کے لیے ہم کام کررہے ہیں اور جلد تبدیلیاں نظر آئیں گی جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ایم کیو ایم لندن اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی ڈیل ہوگئی جو ڈھیل ملی ہوئی تو مصطفی عزیزآبادی نے کہا کہ ڈیل ہوتی تو 9 دسمبر کو گرفتاریاں بھی نہیں ہوتیں کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہم اپنا کام کافی عرصے سے کررہے تھے جس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوئے ہیں شہر میں الطاف حسین کے بینرز لگے ہیں اور چاکنگ ہوئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شہر آج بھی الطاف حسین کا ہے مصطفی عزیز آبادی نے الزام لگایا کہ الطاف حسین کے بینرز لگنے سے سب سے زیادہ پریشانی بہادرآباد ٹولے کو ہوئی ہے اور اسی نے یہ بینرز اتروائے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان مصطفی عزیز آبادی کے اس الزام کی تردید کرتی ہے کہ الطاف حسین کے بینرز بہادرآباد ٹولے یعنی ایم کیو ایم پاکستان نے اتروائے ہیں ایک رہنما نے رابطہ کرنے پر کہا کہ بینرز ہم نے نہیں اتروائے ہمیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن یہاں لندن یا پاکستان کہے بغیر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم کی واپسی سے اگر کسی کو سب سے زیادہ پریشانی ہوسکتی ہے وہ ایم کیو ایم ہی ہے کچھ بتاتے والے بتاتے ہیں کہ الطاف حسین کی تصاویر والے بینرز لگنے کے بعد کچھ پریشان حال افراد نے کہیں رابطہ کیا تو انہیں جواب ملا کہ اگر بینرز لگ گئے ہیں تو اتروادو کیا اب ہر کام ہم سے پوچھ کر کرو گے اور پھر بینرز اتروادیے گئے لیکن چاکنگ ابھی بھی موجود ہے۔

ایک آخری بات کراچی کی سیاست میں اگر کوئی تبدیلی آنا بھی تو ایک بات واضح ہے کہ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوگا کہ کسی کی کچھ سمجھ نہیں آئے گا کیونکہ بہت کچھ کافی عرصے سے اندر ہی اندر پک رہا ہے۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Exit mobile version