قطری وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا
قطر وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی پریس کانفرنس
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان
قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے
جو جنگ بندی کی جانب اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ غزہ تک امداد کی فراہمی کے راستے کھولنے اور انسانی بحران کم کرنے میں مدد دے گا۔
شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ یہ جنگ بندی 19 جنوری سے نافذ ہوگی
اور ابتدائی مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا۔
اس دوران جنگ بندی کے ساتھ اسرائیلی افواج آبادی
والے علاقوں سے پیچھے ہٹ جائیں گی لیکن غزہ کی سرحدوں پر موجود رہیں گی۔
معاہدے کے تحت
معاہدے کے تحت قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ کیا جائے گا
اور بے گھر افراد کو ان کے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
پہلے مرحلے میں غزہ کے تمام علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل بڑھائی جائے گی اور ہسپتالوں،
صحت کے مراکز اور بیکریوں کو بحال کیا جائے گا۔
ساتھ ہی بے گھر افراد کے لیے ایندھن، شہری دفاع کے آلات اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
قطری وزیراعظم کی تصدیق
قطری وزیراعظم نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حماس کے تحت 33 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی
جن میں خواتین، بچے اور بیمار افراد شامل ہیں، جبکہ اسرائیل اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کو رہا کرے گا
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تفصیلات پہلے مرحلے کے دوران طے کی جائیں گی۔
شیخ محمد نے کہا کہ قطر اس معاہدے کے تمام مراحل پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے
دونوں فریقوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا تاکہ خطے میں امن قائم کیا جا سکے اور انسانی جانوں کا تحفظ ممکن ہو۔
الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق
اسرائیل اور حماس کے درمیان اس معاہدے کے حوالے سے مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔
بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ حماس نے قطر میں مذاکرات کے دوران جنگ بندی اور یرغمالیوں کی
واپسی پر اتفاق کرلیا ہے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔
غزہ جنگ بندی معاہدے کے اہم پہلو کیا ہیں؟
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے معاہدے میں
ایک ابتدائی جنگ بندی کی پیشکش کی گئی ہے جو کہ 6 ہفتوں تک جاری رہے گی۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا وسطی غزہ سے عمل میں لایا جائے گا
اور شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی بھی شامل ہوگی۔
معاہدے کے حوالے سے یہ طے پایا ہے کہ غزہ میں روزانہ انسانی امداد کے 600 ٹرکس داخل کیے جائیں گے
جن میں سے 50 ٹرکس ایندھن لے کر جائیں گے جبکہ 300 ٹرکس شمال کی طرف منتقل کیے جائیں گے۔
حماس کی طرف سے یہ وعدہ کیا گیا ہے
کہ وہ تمام خواتین (فوجی اور عام شہری) بچوں اور 50 سال سے زائد عمر کے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
یہ رہائی 6 ہفتوں کے دوران تدریجی طور پر ہوگی، ہر ہفتے 3 یرغمالیوں کو چھوڑا جائے گا
اور باقی ماندہ یرغمالیوں کو معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے آزاد کیا جائے گا۔
اسرائیل کی طرف سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے
کہ ہر یرغمالی شہری کی رہائی کے بدلے 30
فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا، جبکہ ہر
اسرائیلی خاتون فوجی کی رہائی پر 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
یہ بھی طے پایا ہے کہ سب سے پہلے زندہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا
اور بعد میں مرنے والے یرغمالیوں کی باقیات حوالے کی جائیں گی۔
معاہدے کی عملداری کی ضمانت قطر، مصر اور امریکہ دیں گے۔
خیال رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا یہ کہنا ہے کہ
غزہ معاہدے کے سلسلے میں فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ اپنے ماضی کے اثرات کھو چکی ہے۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔