امریکا نے پاکستان اور چین سمیت دیگر ممالک کی 80 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا

شیئر کریں

امریکا نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی کمپنیوں کو برآمدات کی بلیک لسٹ میں شامل کردیا:

امریکا نے چین کی مشہور کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا سروس فراہم کرنے والی کمپنی انسپر گروپ کی

چھ ذیلی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر چینی اداروں کو اپنی برآمدی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

انسپر کی ذیلی کمپنیاں اور پابندیاں:

امریکی محکمہ تجارت کے مطابق، یہ

ذیلی کمپنیاں چینی فوج کے لیے سپر کمپیوٹرز کی تیاری میں معاونت فراہم کرنے کے جرم میں اس فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔

ان میں سے پانچ کمپنیاں چین میں اور ایک تائیوان میں واقع ہیں۔

انسپر گروپ کی صورتحال:

انسپر گروپ خود بھی 2023 میں اس پابندیوں کی فہرست میں شامل ہو چکی ہے۔

حالیہ طور پر تقریباً 80 کمپنیوں اور اداروں کو برآمدی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے،

جن میں سے 50 سے زائد چین میں، جبکہ دیگر ممالک جیسے
تائیوان،
ایران،
پاکستان،
جنوبی افریقہ
اور متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔

پابندیوں کی وجوہات:

یہ پابندیاں چین کی ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ صلاحیتوں، کوانٹم ٹیکنالوجیز، اور

جدید مصنوعی ذہانت کے فروغ کو روکنے کے مقصد سے عائد کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ، چین کے ہائپرسونک ہتھیاروں کے پروگرام کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا بھی ان پابندیوں کا مقصد ہے۔

امریکی وزیر کا بیان:

امریکی وزیر تجارت ہیورڈ لٹک نے کہا ہے کہ امریکا اپنے دشمنوں کو

امریکی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ یہ ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بنتا ہے۔

چین کا ردعمل:

چین کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ

چینی کاروباری اداروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے گی۔

جبکہ چین کی وزارت تجارت نے بھی اس اقدام کو دونوں فریقوں کے درمیان

بات چیت اور تعاون کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔

چینی سفارت خانے کا موقف:

چینی سفارت خانے نے امریکا کے اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ

امریکا فوراً فوجی امور کو بہانہ بنا کر تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاملات کو سیاسی رنگ دینے سے باز آئے۔

مستقبل کے اقدامات:

یاد رہے کہ امریکا نے ایران کی ڈرونز اور دفاعی سامان کی خریداری کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کر رکھے ہیں،

تاکہ اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں کی ترقی کو روکا جا سکے۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Exit mobile version