تصوف کی تاریخ میں سلسلہ چشتیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو محبت، رواداری، اور خدمتِ خلق کے اصولوں پر استوار ہے۔ اس سلسلے کی عظمت کو چار چاند لگانے والی ہستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ہیں، جنہیں "محبوب الٰہی” اور "سلطان المشائخ” جیسے القابات سے نوازا گیا۔ آپ نے نہ صرف ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ سلسلہ چشتیہ کو ایک عالمگیر تحریک کی شکل دی۔ زیرِ نظر مضمون میں آپ کی زندگی، دینِ اسلام کے لیے خدمات، سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی مقبولیت، اور آپ کی روحانی کرامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی شخصیت پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ایک مضمون میں ان کے شایان شان تحریر کرنے کی کوشش ایسا ہے جیسا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے یا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اتنی عظیم ہستی کی شان میں عرق ریزی کرنا خاکسر کیلئے بڑے اعزاز سے کم نہیں۔
ابتدائی حیات اور تعلیم
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت 1238ء میں بدایوں (موجودہ اتر پردیش، بھارت) میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ والد سید احمد بخاری اور والدہ بی بی زلیخا دونوں صوفیاء کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش والدہ نے کی، جو گہری دینداری اور صبر کی پیکر تھیں۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کرنے کے بعد، آپ علم کی تکمیل کے لیے دہلی تشریف لے گئے، جہاں مولانا شمس الدین خوارزمی جیسے جید علماء سے فقہ، حدیث، اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔
حضرت محبوب الہٰی کے روحانی سفر کا آغاز
20 سال کی عمر میں آپ کی ملاقات حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ (سلسلہ چشتیہ کے تیسرے بزرگ) سے ہوئی، جو آپ کی روحانی کشش سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خلافت عطا کی۔ آپ نے اپنی خانقاہ غیاث پور (دہلی) میں قائم کی، جو غریبوں، مسافروں، اور طالبانِ حق کے لیے پناہ گاہ بن گئی۔ جہاں روزانہ ہزاروں افراد میں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا تھا، جسے "لنگرِ نظامیہ” کہا جاتا تھا۔ آپ کی سادگی اور درویشی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی سلاطین کے درباروں میں حاضری کو ترجیح نہیں دی، بلکہ فرمایا: "میرا دربار غریبوں کے دلوں میں ہے۔”
دینِ اسلام کی خدمت میں نمایاں کارنامے
1. سماجی انصاف اور مساوات:
آپ کا عقیدہ تھا کہ "اللہ کے نیک بندے وہ ہیں جو مخلوقِ خدا کی خدمت کرتے ہیں۔” آپ نے ہر مذہب اور طبقے کے لوگوں کو یکساں محبت دی۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک ہندو جو آپ کی توہین کرتا تھا، بیمار پڑ گیا۔ آپ نے اس کے گھر جا کر دعا کی، اور وہ شفایاب ہو گیا۔ یہ واقعہ آپ کی رواداری کی بہترین مثال ہے۔
2. علمی و روحانی تربیت:
آپ نے قرآن و حدیث کی تعلیم کو روحانیت کے ساتھ جوڑا۔ آپ کے شاگرد حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا: "آپ کی مجلس میں بیٹھنا گویا علم و عرفان کے سمندر میں غوطہ زن ہونا تھا۔” آپ کے ملفوظات "فوائد الفواد” اور "راحت المحبین” آج بھی تصوف کے طالبین کے لیے رہنما ہیں۔
3. ثقافتی اثرات:
آپ کے مرید حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے فارسی اور ہندوستانی موسیقی کے امتزاج سے قوالی کو جنم دیا، جو آج تک چشتیہ سلسلے کی پہچان ہے۔ امیر خسرو نے آپ کو "سلطان المشائخ” کہہ کر پکارا اور آپ کی محبت میں سینکڑوں اشعار لکھے۔
بین المذہب ہم آہنگی:
آپ نے کبھی تبلیغ کے لیے جبر کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ آپ کا مزار آج بھی ہندو، سکھ، اور عیسائی زائرین کی آماجگاہ ہے، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محبت ہی وہ زبان ہے جو تمام فرقوں کو جوڑ سکتی ہے۔
سلسلہ چشتیہ نظامیہ: عالمی پھیلاؤ اور نمایاں ہستیاں
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے سلسلہ چشتیہ کو ایک منظم تحریک کی شکل دی اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی شاخیں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلیں۔ اس سلسلے سے وابستہ چند عظیم شخصیات یہ ہیں:
– حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ : آپ کے جانشین جنہوں نے دہلی میں سلسلے کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔
– حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ: مشہور صوفی شاعر جنہیں "ہندوستانی ثقافت کا باپ” کہا جاتا ہے۔
– حضرت خواجہ برہان الدین غریب رحمتہ اللہ علیہ: جنہیں دکن (موجودہ حیدرآباد) میں تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔
– حضرت شیخ اکھی سراج آئینہ ہند رحمتہ اللہ علیہ: بنگال میں سلسلے کی تبلیغ کے لیے مشہور۔
آج پاکستان میں گولڑہ شریف، سیال شریف، اور تونسہ شریف جیسی خانقاہیں اسی سلسلے کی روحانی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں اجمیر شریف اور دہلی کی درگاہیں بھی زائرین کے لیے مرکزِ عقیدت ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی عظیم کرامات
معجزاتی کھانا
ایک مرتبہ خانقاہ میں صرف 50 روٹیاں تھیں، مگر ہزاروں افراد کو کھانا کھلایا گیا۔ روٹیاں ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئیں، اور آخر میں اضافی روٹیاں بچ گئیں۔
وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت، پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش
دشمن کی مغفرت
ایک شخص جو آپ کی برائی کرتا تھا، انتقال کر گیا۔ آپ اس کی قبر پر گئے اور دعا کی: "اے اللہ! میرے سبب سے اسے عذاب نہ دینا۔” کہا جاتا ہے کہ اس کی قبر سے خوشبو آنے لگی۔
آگ پر قابو پانا
غیاث پور میں ایک مرتبہ بڑی آگ لگ گئی۔ آپ نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ تنکے، روٹی، اور پانی تقسیم کریں۔ جب یہ سامان آگ میں پھینکا گیا تو آپ کی دعا سے آگ یکدم بجھ گئی۔
وصال اور روحانی میراث
حضرت نظام الدین اولیاء نے 3 اپریل 1325ء کو دہلی میں وصال فرمایا۔ دہلی میں واقع درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء ہر سال لاکھوں زائرین کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ خاص طور پر آپ کے سالانہ عرس پر قوالی کی محفلیں سجتی ہیں، جو حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی ایجاد کردہ روایت ہے۔ آج بھی یہ درگاہ محبت، امن، اور رواداری کا پیغام دیتی ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے تصوف کو صرف روحانی سکون تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے سماجی انصاف، تعلیم، اور ثقافتی یکجہتی کا ذریعہ بنایا۔ آپ کی تعلیمات آج بھی اُس وقت کی طرح متعلقہ ہیں جب دنیا تقسیم، تعصب، اور مادہ پرستی کی آگ میں جل رہی ہے۔ سلسلہ چشتیہ نظامیہ کا یہ پیغام کہ "محبت ہی وہ راستہ ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے” آج بھی لاکھوں دلوں کو روشن کر رہا ہے۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔