
کراچی: قومی یکساں نصاب کے حوالے سے کاپوریٹ پاکستان گروپ اور نیٹ شیل کانفرنس کی مشترکہ آن لائین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ یکساں نصاب کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ یکساں لرننگ اور یکساں نصاب مقرر کیا جارہا ہے ۔ یہ بہت بڑا کام کرنے چارہے ہیں۔ جس میں ہچکولے بھی لگیں گے۔ اور مسائل بھی آئیں گے۔
ملک اور ریاستیں چاہتی ہیں کہ ان کے کم از کم لرننگ کا معیار مقرر کیا جائے۔ اور یہ بہت بڑی وجہ ہے کہ بہت سارے ملکون مین یکساں نصاب کو فانذ کیا گیا ہے۔
ہم نے 72 سال میں تعلیم پر توجہ نہیں دی ہے۔ حکومیتں اچھی تعلیم دینے میں ناکام رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے منشور میں یکساں نصاب تھا۔
یکساں تعلیمی نصاب کا مقصد کم از کم سیکھنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ اس وقت پہلی سے پانچویں تک کا یکساں نصاب تیار کیا گیا ہے۔ بعد ازاں چھٹی سے اٹھویں تک کا نصاب تیار ہوگا بعد ازاں نویں اور دسویں کا نصاب تیار کیا جائے گا۔
شفقت محمود نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ کسی نظام تعلیم کو ختم نہیں کررہے ہیں۔ اولیول اے لیول نظام تعلیم ہو یا مدارس کا نظام تعلیم سب کو جاری رکھنا جاسکتا ہے۔ کتابیں بھی اسکول اپنی چھاپ سکتے ہیں۔ مگر کم از کم تربیت اور سکھینے کا معیار مقرر کیا گیا ہے۔
یکساں نصاب پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ہم پر جو تنقید ہے لوگون کی طرف سے کہ سارے پاکستان میں سب بچوں کے لئے ایک کتاب ہوگی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک کتاب ہو، ہم نے ماڈل ٹیکسٹ بک بنائی ہیں۔
مگر انہیں پڑھانا لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اسکولز اپنی کتابوں کو بھی این او سی کے بعد لاگو کرسکتے ہیں۔ اگر یکساں قومی نصاب کا سال 2006 کے نصاب سے مخلتف نہ ہوتا تو اتنا شور نہیں مچتا۔ جو بھی نصاب تیار کیا ہے وہ فیڈ بیک کی ببیاد پر ہے۔
شفقت محمود کا کہنا تھا کہ اگر اسکول اضافی مضامین پڑھانا چاہیں انہیں اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ اس کو پڑھا سکیں اگر کوئی اسکول موسیقی کو پڑھانا چاہے تواجازت ہوگی جبکہ اگر مدارس درنظامی پڑھانا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔
انگلش سائنس اور ریاضی انگریزی میں ہوگا باقی مضامین اردو زبان مین ہوگا۔ کچی جماعت کا بچہ انگریزی سیکھے گا تو اس کے لئے استاد کو بھی انگریزی سکیھنا ہوگی۔ اساتذہ کی تربیت کے ماڈل بھی بنے ہیں ، اساتذہ کی تریبیت کے حوالے سے مشکلات آئیں گی۔
اس بات کو جانچنا کہ بچے نے کیا سیکھا ہے۔ اس کا روایتی طریقہ کار امتحان ہے۔ ہمارے پاس ہمارے امتحانات کتابوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں مگر لرننگ آوٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتے ہیں۔ نئے یکساں قومی نصاب کے لئے امتحانات کیسے ہونگے اس پر ابھی کام جاری ہے۔
یکساں قومی نصاب کو سندھ کے علاوہ تمام صوبوں پنجاب ، خیبر پختون خواہ ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تمام نے قبول کیا ہے۔ سندھ کو سوشیالوجی کے مضمون پر اعتراضات ہیں جو کہ بہت ذیادہ بڑے نہیں ہیں۔ مگر سیاست کی وجہ سے نصاب کو قبول نہیں کیا جارہا ہے۔
قومی نصاب کونسل کی ڈائریکٹر مریم چغتائی کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بہت سے لوگ نصاب بنانے میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کونے کونے مین ٹیچر والدین طلبہ فیڈ بیک دینا چاہیں۔ اس کو غور سے سنا جائے گا۔
آئندہ چھ ماہ میں کنڈر گارڈن میں بارہویں تک کا نصاب آئے گا۔ یہ نصاب اپنی ویب پر ڈال کر پورے پاکستان سے فیڈ بیک لین گے ۔ اس سے قبل 2002 ہو یا 2006 اس کا نصاب ذیادہ تر پنجاب یا لاہور کے رہنے والے افراد نے مرتب کیا تھا۔
اس مرتبہ چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو اس میں یکساں نمائندگی دی گئی۔ جس سے اس نصاب میں پورے پاکستان کی آواز کو شامل کیا گیاہے۔
اسلامیات کے حوالے سے علمائ نے بہت لچک اور تعاون کا رویہ اختیار کیا کہ اور انہوں نے اسلامی تعلیمات جہاں فرقہ وارانہ تفریق ہو اس کو نہایت لچک سے ہر ایک کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مریم چغتائی کا کہنا تھا کہ تعلیم کو ایک رشوت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جو اسکول یہ شور مچا رہے ہیں کتابیں نہیں ہیں انہیں کہا جائے ویب سائٹ پر بہت سے پبلیشرز کی منظور شدہ کتابیں موجود ہیں انہیں استعمال کیا جائے۔
اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ڈاکٹر مریم چغتائی کا کہناتھا کہ ایک ٹیچر ٹریننگ پروگرام آن لائین مرتب کیا ہے۔ گوگل برطانیہ اور دیگر ادارون کے ساتھ اساتذہ کی تربیت کا انتظام کررہے ہیں۔
بچوں کو اردو پڑھانے کے معاملے پر ہونے والی تنقید پر ڈاکٹر مریم کا کہنا تھا کہ لوگوں نے اردوں کو ایک کم تر زبان بنا دیا ہے۔
اگر نجی اسکولوں میں چینی زبان پڑھانی شروع کردی جائے اور والدین کو کہا جائے کہ اس سے مستقبل کی کارپوریٹ نوکریاں ملیں گی تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بچوں کی مادری زبان اردو ہے۔ اور اس مین بچے ذیادہ بہتر طریقے سے سیکھ سکتے ہیں۔
کانفرنس سے بلوم فلیڈ اسکول کی ڈائریکٹر شازیہ عصمت زیدی، پاکستان اے سی سی اے کے سربراہ سجید اسلم، رورل ڈویلپمنٹ فانڈیشن کی بانی گل مریم، این بی پی فنڈ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر امجد وحید، بیکن ہاوس نیشنل یورنیورسٹی چیئر پرسن نصرین محمود قصوری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس کے علاوہ نکسٹ جنریشن پروفیشنل ڈویلپمنٹ کی بانی شگفتہ جبین، اسکفورڈ یورنیورسٹی پریس کے مینجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین ، روٹس ملینیم ایجوکیشن کے سی ای او چوہدری فیصل مشتاق، انسٹیٹوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے صدر طالب ایس کریم نے بھی خطاب کیا اور یکساں قومی نصاب کے فوائد، مشکلات ، خدشات پر کھل کر بحث کی گئی۔