
ٹیکس قوانین میں بڑی تبدیلیاں:
ایف بی آر کو فوری ریکوری اور نگرانی کے وسیع اختیارات:
وفاقی حکومت نے ایک نیا آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو
ٹیکس وصولی اور کاروباری نگرانی کے حوالے سے غیر معمولی اختیارات سونپے گئے ہیں۔
اس اقدام کا مقصد ٹیکس وصولی کے عمل کو تیز کرنا اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
صدرِ مملکت کی منظوری سے نیا آرڈیننس جاری:
صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی منظوری سے جاری کردہ "ٹیکس لاز (ترمیمی) آرڈیننس 2025” کے
ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔
ان ترامیم کے بعد، ایف بی آر کو اب اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے فوراً بعد بینک اکاؤنٹس اور منقولہ و غیر
منقولہ جائیدادوں سے ٹیکس وصول کرنے، کاروباری مراکز کو سیل کرنے اور بغیر نوٹس دیے ریکوری کرنے کی اجازت ہوگی۔
عدالتی فیصلوں کے بعد فوری ٹیکس واجب الادا:
ٹیکس ماہرین کے مطابق،
نئی ترامیم کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اگر کسی کیس میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ
ٹیکس دہندہ کے خلاف آتا ہے، تو ٹیکس فوری طور پر قابلِ ادائیگی ہو جائے گا،
خواہ دیگر قوانین میں کوئی اور مہلت دی گئی ہو۔ یہ ترمیم خاص طور پر ان عدالتی فیصلوں کے اثر کو
زائل کرنے کے لیے کی گئی ہے جو ٹیکس دہندگان کو ریکوری سے بچاؤ فراہم کرتے تھے۔
ایف بی آر کے اختیارات میں وسعت:
آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کے افسران کو اب یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ منقولہ و غیر منقولہ
جائیدادیں ضبط کر کے فروخت کر سکیں، بینک اکاؤنٹس منجمد کر سکیں،
اور کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف فوری کارروائی کر سکیں۔
اس کے علاوہ،
ایف بی آر پیداواری مراکز یا کاروباری مقامات پر اپنے اہلکار تعینات کر کے پیداوار، سامان کی سپلائی
اور غیر فروخت شدہ اشیاء کے اسٹاک کی نگرانی بھی کر سکے گا۔
خصوصی مقدمات کی روشنی میں آرڈیننس کی ضرورت:
حالیہ ترامیم کو کچھ مخصوص مقدمات کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے،
جہاں عدالتی فیصلوں کی وجہ سے ٹیکس ریکوری میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔
مثال کے طور پر، ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 5 سے 6 ارب
روپے کی ریکوری ممکن نہیں ہو پا رہی تھی، جس کے باعث اس آرڈیننس کو ضروری سمجھا گیا۔
ٹیکس ماہرین کی جانب سے شدید تنقید:
سینئر ٹیکس وکیل وحید شہزاد بٹ نے ان ترامیم پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم ایف بی آر کو بے پناہ اختیارات دیتی ہیں اور
ٹیکس دہندگان کے لیے نوٹس دیے بغیر سخت کارروائی کا دروازہ کھولتی ہیں۔
ان کے مطابق،
یہ اقدامات اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے منافی ہیں جن میں نوٹس دینے کی شرط لازمی قرار دی گئی تھی۔
سرمایہ کاری اور قانونی شفافیت پر ممکنہ اثرات:
وحید شہزاد بٹ کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم ٹیکس نظام میں غیر جانبداری کو متاثر کر سکتی ہیں اور
مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں۔
ان کے نزدیک، یہ اقدامات ٹیکس وصولی کے بجائے "ٹیکس ڈکیتی” کا تاثر دیں گے اور قانونی شفافیت
اور منصفانہ کارروائی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔
نظام میں بے چینی اور عدالتی تنازعات کا خدشہ:
ٹیکس ماہرین کا مجموعی طور پر خیال ہے کہ نئے آرڈیننس سے ٹیکس نظام میں شدید بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔
عدالتوں کے فیصلوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش سے قانونی پیچیدگیوں اور عدالتی تنازعات میں اضافہ متوقع ہے۔