برابری پر بینکاری پالیسی کے ذریعے خواتین کی مالی شمولیت کا فروغ

عالمی پالیسی سازوں اور پیشہ ور ماہرین کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی کاوشوں کی تعریف

Spread the love

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دسمبر 2020 میں اپنی’برابری پر بینکاری پالیسی‘ کے حوالے سے مختلف قومی اور بین الاقوامی فریقوں سے مشاورت کا آغاز کیا۔

عنقریب لاگو ہونے والی برابری پر بینکاری پالیسی کے تحت مالی شعبے میں شناخت کردہ شعبوں اور مخصوص اقدامات کے ذریعے ایک صنفی نقطہ نگاہ متعارف کرایا جائے گا تاکہ مالی شعبے میں خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر باقر اسٹیٹ بینک کی ’برابری پر بینکاری ‘پالیسی سے متعلق مکالمے کی میزبانی کریں گے

متعدد شعبوں کے ملکی فریقوں کے ساتھ متعدد مذاکراتی نشستیں (فوکس گروپ ڈسکشنز) ہوچکی ہیں۔ مشاورتی عمل میں اسٹیٹ بینک کی شراکت کے ساتھ عالمی بینک نے ایک ویبنار بعنوان ‘اسٹیٹ بینک کی برابری پر بینکاری پالیسی پر مشاورتی مذاکرات’ کا انعقاد کیا تاکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے تناظر میں صنفی مالی شمولیت کے حوالے سے عالمی رہنماوں کی صنفی پالیسیوں اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔

اس ویبنار کو اسٹیٹ بینک اور عالمی بینک پاکستان کے فیس بک پیجز پر براہِ راست نشر کیا گیااور بڑے پیمانے پر دیکھا گیا۔ ویبنار کے دوران اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے بین الاقوامی شرکا کے ساتھ پینل ڈسکشن کی میزبانی کی، جس میں عالمی بینک کی گلوبل ڈائریکٹر جینڈر کیرن گراو¿ن، ویمنز ورلڈ بینکنگ کی صدر اور سی ای او میری ایلن اسکنڈرین، اور انڈونیشیا کے او سی بی سی– این آئی ایس پی بینک کی صدر ڈائریکٹر پاروتی سرجودجا شامل تھیں۔ اس نشست میں اس شعبے کے معروف ماہرین کو صنفی مین اسٹریمنگ کے حوالے سے اپنے تجربات پر روشنی ڈالنے کا موقع ملا جس سے اسٹیٹ بینک کی صنفی پالیسی کے مشاورتی عمل کو تقویت ملی۔

گورنر رضا باقر نے کہا کہ مالی شمولیت کی حکمت ہائے عملی میں یہ مفروضہ مضمر ہے کہ قومی ترقی کے اہداف کے حصول کی خاطر ہر شہری، مرد و زن دونوں، کو متحرک طور پر استعمال کیا جائے۔ تاہم خواتین وسائل اور مواقع سے غیرمتناسب طور پر دور ہیں اور اس سلسلے میں ہدفی اقدامات درکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ٹیم نے یہ اقدام کیا ہے، جس سے مالی شعبے میں عمداً صنفی طرز عمل کے ذریعے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات بتائے گئے ہیں۔

بات چیت کے دوران عالمی بینک کی گلوبل ڈائریکٹر جینڈر کیرن گراو¿ن نے اجاگر کیا کہ صنفی غیرجانبداری عملی طور پر ایک لاشعوری صنفی تعصب بن جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو نظرانداز کیا جاتا ہے؛ لہٰذا مالی مصنوعات اور خدمات پر ایک صنفی نقطہ نظر کا اطلاق ہونا چاہیے۔

مزید برآں، انڈونیشیا کے او سی بی سی– این آئی ایس پی بینک کی صدر سرجوداجا نے بتایا کہ انڈونیشیا میں ان کا بینک کیا کام کررہا ہے کہ اور پاکستان مالی شمولیت کو بہتر بنانے میں انڈونیشیا کی کامیابی سے کیا سیکھ سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک میں اسلامی بینکاری کی منڈیاں ترقی کر رہی ہیں۔

ویمنز ورلڈ بینکنگ کی صدر اور سی ای او اسکنڈرین نے خواتین کی ملکیت میں چلنے والے کاروباری اداروں کے حوالے سے اپنے تجربات سے آگاہ کیا جنہوں نے خصوصاً پاکستان کے ریٹیل سیکٹر میں نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے۔ ویبنار میں عالمی بینک کے جنوب ایشیائی خطے کے نائب صدر ہارٹ وگ شیفر اور آئی ایف سی کے نائب صدر برائے ایشیا اور بحرالکاہل الفونسو گارسیا مورا نے پاکستان میں صنفی مالی شمولیت بہتر بنانے کے ضمن میں اسٹیٹ بینک کی کوششوں کو سراہا۔

ڈپٹی گورنر سیما کامل نے بھی اسٹیٹ بینک کی برابری پر بینکاری کی پالیسی کے حوالے سے پریزینٹیشن دی۔ویبنار سے صنفی پالیسی اور روایات میں متعلقہ عالمی ماہرین سے قابل قدر آراءکے حصول میں بہت مدد ملی۔ ان آراءاور پاکستانی فریقوں کے قابل قدر مشوروں کی روشنی میں اس پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا اور اسے مارچ2021ءمیں متعارف کرایا جائے گا۔

پالیسی کا مسودہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔

Exit mobile version