
اسلام آباد: گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اثر
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور
اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس صورت حال میں وزیراعظم کا هدف، ایکسپورٹس کو 60 ارب ڈالر تک پہنچانے کا، حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
انڈسٹری کی مقابلے کی صلاحیت متاثر
پی بی سی نے وزیراعظم کو ایک خط لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت دوگنا کرنے سے
پاکستان کی صنعت عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دے گی۔
خط میں واضح کیا گیا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ایکسپورٹس کا ہدف 2027 تک مکمل نہیں ہو سکے گا۔
مقامی پیداوار کے مسائل
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے لیے ٹیرف پہلے ہی زیادہ ہیں،
جبکہ بجلی کی قیمت 17 سینٹ فی یونٹ ہے، جو کہ بھارت (6 سینٹ)، ویتنام (8 سینٹ)، اور بنگلہ دیش (9 سے 10 سینٹ) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان کی 50 فیصد سے زیادہ ایکسپورٹس گیس سے چلنے والے کیپٹیو پاور پلانٹس پر منحصر ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کا اثر
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت بڑھائی ہے۔
آئی ایم ایف کے ابتدائی مطالبے کے مطابق، وہ پلانٹس جو درآمد شدہ ایل این جی کی
مکمل قیمت نہیں ادا کر رہے تھے، انہیں گیس کی فراہمی بند کرنے کا کہا گیا تھا۔
تاہم، مذاکرات کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ گیس کی فراہمی بند نہیں کی جائے گی،
بلکہ اس کی قیمت میں اضافہ کیا جائے گا۔
مقابلہ کاری میں مشکلات
پاکستان بزنس کونسل نے مزید بتایا کہ امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر عائد کردہ ٹیرف کے بعد،
مہنگی گیس کی بدولت پاکستان کی ایکسپورٹس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا،
اور اس کے حریف ممالک اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔
اس کے علاوہ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی صورت میں تمام صنعتوں کو نیشنل گرڈ پر منتقل کرنے کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔
متبادل ذرائع توانائی کا استعمال
پی بی سی نے اشارہ کیا کہ مہنگی گیس کی وجہ سے صنعتیں متبادل ذرائع جیسے کہ شمسی توانائی اور
دیگر وسائل کا استعمال بڑھائیں گی، جس کے نتیجے میں شمسی توانائی کے حصول کے لیے زرمبادلہ کا زبردست نقصان ہوگا۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔