بلاگتازہ ترینرجحان
Trending

حمیرا اصغر کی لاش دفن ہو جائے گی مگر سچ پہلے ہی دفن ہوچکا ہے!

شیئر کریں

اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کا معاملہ ایک ایسا دلخراش اور پراسرار واقعہ ہے، جس نے نہ صرف معاشرتی بے حسی کو بے نقاب کیا ہے بلکہ پاکستان میں فرانزک اور قانونی نظام کی ناکامی کو بھی واضح کر دیا ہے۔

ظاہر ہے ابھی تک جب یہی طے نہیں کیا گیا کہ اسے قتل کیا، اُس کی لاش کی باقاعدہ پوسٹ مارٹم کیسے ہو سکے گی۔

ایک کرائے کے فلیٹ سے چھ تا نو ماہ پرانی ان کی لاش ملنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیسے اور کن حالات میں مریں؟

معاشرتی بے حسی

مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کی اپنے قریبی خاندان نے بھی اس موت کی سنجیدہ تحقیق کا مطالبہ نہیں کیا ہے، بلکہ لاش وصول کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔

یہاں تک کہ وہ مالک مکان بھی، جسے کرایہ نہ ملنے پر فکر ہونی چاہیے تھا، اتنے مہینے تک وہ فلٹ خالی کرانے کیوں نہیں گیا!

میری صحافتی زندگی کا آغاز کرائم اینڈ انویسٹیگیٹو رپورٹنگ سے ہوا، اور اس میں مجھے ایک نایاب موقع ملا کہ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (KEMC) کے اس وقت کے چیئرمین شعبۂ فرانزک میڈیسن، مرحوم پروفیسر نصیب آر اعوان کی زیر نگرانی فرانزک میڈیسن کے اہم رموز سے واقف ہوا۔

پروفیسر صاحب نے نہ صرف مجھے میڈیکل جیورس پروڈنس (طبی قانونیات) کا مفہوم سکھایا بلکہ مجھے باقاعدہ پوسٹ مارٹم کے مراحل کو دیکھنے اور سمجھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔

مزید پڑھیں: اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی موت کئی ماہ قبل ہونے کا انکشاف

اسی تجربے نے مجھے یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ کسی موت کی اصل وجوہات جاننے کے لیے فرانزک سائنسی قابلیت، ادارہ جاتی آزادی اور قانونی ضابطوں کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔

یہی پس منظر تھا جس کی بنیاد پر میں نے حمیرا اصغر کے معاملے پر نیٹ براؤزنگ کی اور ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

اس زمانے میں کاذ آف ڈیتھ میں ہارٹ فیل ہونا لکھا جاتا تھا، اور شاید اب بھی۔ مگر ہارٹ فیل تو علامت ہے، کاز آف ڈیتھ نہیں ہے۔

بہرحال اگر پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا ہے جو تکنیکی اعتبار سے کئی ماہ پرانی لاش کا مفصل اور نتیجہ خیز معائنہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو وہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال (AKUH) کراچی ہے۔

کنگ ایڈورڈ بھی اچھا ادارہ ہے لیکن آغا خان بہتر ہے کیونکہ وہاں کا پیتھالوجی لیبارٹری نظام بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے اور وہ ہسٹو پیتھالوجی، ٹاکسیکولوجی، مائیکرو بایولوجی، مالیکیولر ڈائیگناسٹکس، اور ڈی این اے تجزیہ کی مکمل سہولت رکھتا ہے۔

اصولاً، یہ ادارہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ حمیرا اصغر کی موت قدرتی تھی، خودکشی تھی، کسی حادثے یا انفیکشن سے ہوئی، یا قتل کیا گیا تھا — بشرطیکہ لاش میں موجود شواہد مکمل طور پر ضائع نہ ہو چکے ہوں۔

ویسے پاکستان میں تو غیر پُراسرار کیسز میں انصاف کو دفن کردیا جاتا ہے۔ مگر یہ سچ ہے کہ پاکستان میں فرانزک سسٹم کو دو بڑے اور سنگین مسائل کا سامنا ہے، جو حمیرا اصغر جیسے پُر اسرار کیسز کو انصاف سے محروم کر سکتے ہیں۔

پہلا مسئلہ ہے: “چَین آف کسٹڈی” (Chain of Custody) یعنی شواہد کے محفوظ اور مربوط انتقال کا مکمل فقدان۔

لاشوں کو اکثر بغیر کسی دستاویزی ثبوت، مناسب ریفریجریشن، یا قانونی طریقہ کار کے ہینڈل کیا جاتا ہے، جس سے نہ صرف شواہد کی کریڈیبیلیٹی اور انٹیگریٹی متاثر ہوتی ہے بلکہ عدالت میں پوسٹ مارٹم رپورٹس ناقابلِ قبول بن جاتی ہیں۔

جب تک موت کے مقام سے لیبارٹری تک ہر مرحلے کی مکمل اور محفوظ زنجیر قائم نہ ہو، کسی عدالت میں کوئی نتیجہ قابلِ بھروسہ نہیں ہوتا۔

دوسرا بڑا خلا ہے: “فرانزک اینتھروپولوجی” (Forensic Anthropology) کا پاکستان میں مکمل فقدان۔ یہ شعبہ خاص طور پر ایسی لاشوں کے لیے ضروری ہوتا ہے جو مکمل سڑ چکی ہوں، ڈھانچے میں بدل چکی ہوں یا کئی ماہ پرانی ہوں۔

فرانزک اینتھروپولوجسٹ ماہرین انسانی ہڈیوں اور باقیات کا جائزہ لے کر عمر، جنس، نسل، موت کی ممکنہ وجہ، اور موت کے وقت کا تعین کرتے ہیں۔

یہ وہ تمام مہارتیں ہیں جو حمیرا اصغر کے کیس میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس فیلڈ کا نہ کوئی تربیت یافتہ ماہر ہے، نہ کوئی ادارہ ہے۔

ان تکنیکی اور سائنسی کمزوریوں سے بھی زیادہ خطرناک مسئلہ ہے: اداروں کی پیشہ ورانہ آزادی کا فقدان اور انٹیگریٹی کی کمی۔

چاہے آغا خان جیسا باصلاحیت ادارہ ہی کیوں نہ ہو، اگر اس پر سیاسی، سماجی یا اندرونی دباؤ ہو تو نتائج یا تو روکے جا سکتے ہیں یا ان کی تشریح متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستان کا نظام وہ نہیں جو سچ تک رسائی کو سائنسی طور پر ممکن اور قانونی طور پر محفوظ بنائے — یہاں سچ دریافت تو ہو سکتا ہے، مگر چھپایا بھی جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی سوالات ہیں، جن میں خاص یہ ہیں کہ جس فلیٹ سے پرانی لاش ملی ہے اُس کے تمام فنگر پرنٹس جمع کیے گئے ہیں یا اب اُسے رینوویٹ کر دیا گیا ہے جیسے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد موقعۂ واردات کو واش کردیا گیا تھا!

اس کے علاوہ حمیرا اصغر کے بینک اکاؤنٹ، سوشلائشیشن اور اگر فلیٹ کی بلڈنگ میں سی سی ٹی وی لگے ہوئے ہیں تو کیا ان کی سکروٹنی ہوئی ہے! یا آس پاس کی عمارتوں مسے کوئی کنٹینٹ حاصل کیا جا سکا ہے!

لیکن کیا ان سب سے بڑھ کر کیا پولیس سچ تلاش کرنا بھی چاہتی ہے؟

جب صلاحیت کی کمی ہو، کیس بھی بوسیدہ ہو، تفتیش کے طریقے بھی قرون اولیٰ کے دور کے ہوں جہاں تشدد کر کے سچ اگلوا لیا جاتا ہو، وہاں کون سا افسر اتنی تکلیف لے گا کہ کیس کو حل کرے؟

جب تک فرانزک شواہد سامنے نہیں آتے ہیں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ حمیرا قدرتی طور پر مری، یا اس کی موت کے پیچھے کوئی جرم تھا؟ اور کیا وہ اسی جگہ مری تھی جہاں سے لاش ملی ہے؟

اگر یہ قتل انگلینڈ ہوتا تو اس کی تفتیش ایک “کورونر” (Coroner) کرتا۔ وہ دیکھتا کہ تصویر میں جس انداز سے لاش اوندھے منہ پڑی ہے، وہ قدرتی موت یا خودکشی کی بجائے قتل کا گہرا شبہ پیدا کرتی ہے۔

چپل ایک پاؤں میں ہے اور دوسری قریب پڑی ہے، جو اچانک گرنے یا گرائے جانے کی علامت ہو سکتی ہے۔ جسم نیم مڑا ہوا ہے، جیسے مرنے سے پہلے مزاحمت کی گئی ہو یا مرنے کے بعد زبردستی یوں چھوڑ دیا گیا ہو۔

اگر یہ خودکشی ہوتی تو جسم کی پوزیشن مختلف ہوتی۔ فلیٹ کی تنہائی، کئی ماہ تک کسی کا نہ آنا، اور کسی اہل خانہ کی عدم دلچسپی سب شکوک کو بڑھاتے ہیں۔

بادی النظر میں یہ ایک مشکوک موت ہے، جس کی مکمل فرانزک تفتیش لازمی ہے۔

آخری اطلاع کے مطابق، حمیرا کا بھائی لاش وصول کرنے کراچی پہنچ گیا ہے۔ اصولی طور اسے لاش کا مکمل پوسٹ مارٹم کروانا چاہیے، لیکن اگر وہ قسمت کا لکھا مان لیتا ہے تو میں اُس کو بھی مشکوک لوگوں میں شمار کروں گا۔

تو پھر سوال یہ ہے: کیا حمیرا اصغر کو کبھی انصاف ملے گا؟ شاید اس کا جواب فرانزک سائنس سے کم اور اس بات سے زیادہ وابستہ ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں، میڈیا میں یا ان کے خاندان میں، کسی کو سچ جاننے اور اسے دنیا کے سامنے لانے کی کتنی پروا ہے؟

کیونکہ جب تک ادارے، عوامی دباؤ اور سائنس مل کر کام نہ کریں، تب تک سچ مر جاتا ہے — اور سچ کے ساتھ انصاف بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر کردہ بلاگ مصنف کی ذاتی رائے یا نقطۂ نظر پر مبنی ہے، جو ضروری نہیں کہ ادارے کی پالیسی یا مؤقف کی عکاسی کرتا ہو۔

مالی سال 2025 میں ریکارڈ 38.3 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button