
ایئر انڈیا کے احمد آباد میں حادثے کی ایک مہینے بعد ابتدائی رپورٹ جاری:
حادثے کی تفصیلات اور وجوہات کا جائزہ:
ایک مہینے بعد جاری کی گئی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 12 جون کو احمد آباد سے لندن جانے والے بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارہ کا حادثہ،
جس میں کم از کم 260 افراد ہلاک ہوئے، انڈیا کے ہوابازی کے بدترین حادثات میں سے ایک ہے۔
اس رپورٹ میں اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے، مگر اب بھی کئی سوالات کے جواب باقی ہیں۔
ایندھن کے کنٹرول سوئچز کی اہمیت:
رپورٹ کے مطابق،
حادثے سے کچھ لمحے قبل، طیارے کے انجنوں کے فیول کنٹرول سوئچز رن (چالو) پوزیشن سے کٹ آف (بند) پوزیشن پر چلے گئے۔
اس کی وجہ سے دونوں انجنوں کو ایندھن کی فراہمی بند ہو گئی۔
جیسے ہی انجنوں کی طاقت ختم ہوئی، طیارہ رفتار کم ہونے لگا اور نیچے گرنے لگا۔
ایئرکرافٹ کا فوری ردعمل اور ممکنہ وجوہات:
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیسے ہی طیارہ زمین سے بلند ہوا، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ
رام ایئر ٹربائن خودبخود فعال ہو گیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انجنوں نے طاقت فراہم کرنا بند کر دی تھی۔
حادثے کے آخری لمحات میں، ایک پائلٹ کو دوسرے سے پوچھتے سنا گیا کہ اُس نے ایندھن کی
فراہمی کیوں بند کی، مگر جواب میں کہا گیا کہ اُس نے ایسا نہیں کیا۔
یہ جملہ یہ سوال چھوڑ دیتا ہے کہ اصل میں کیا ہوا۔
پائلٹس اور ان کا تجربہ:
حادثے میں شامل پائلٹس میں سے سبھروال کی عمر 56 سال تھی اور ان کا پرواز کا کل تجربہ 15,638 گھنٹے تھا،
جبکہ شریک پائلٹ کلائیو کنڈر کی عمر 32 سال تھی اور ان کا تجربہ 3,403 گھنٹے تھا۔
بھارتی حکام کے مطابق، سبھروال ایئر انڈیا کے انسٹرکٹر بھی تھے۔
ایندھن کے سوئچز پر سوالات:
جب طیارہ تقریباً ایک ہی وقت میں رن سے کٹ آف پوزیشن پر چلا گیا، تو یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ
یہ سوئچز پرواز کے دوران کیسے حرکت میں آئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی پائلٹ حادثاتی طور
پر ایندھن کے سوئچز کو حرکت نہیں دیتا، اور یہ واقعہ ایک غیر معمولی حالت کی نشاندہی کرتا ہے۔
حالیہ تحقیقات اور ردعمل:
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
جائے حادثہ پر دونوں ایندھن کے سوئچز رن پوزیشن میں پائے گئے اور انجنوں کے دوبارہ جلنے کے آثار بھی موجود تھے۔
ایئر انڈیا نے اس رپورٹ کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ حکام کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
امریکی نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ اور ایف اے اے نے بھی تحقیقات میں تعاون کا اظہار کیا ہے۔
ایئر لائن اور سازوسامان کی حالت:
بوئنگ اور جی ای کی جانب سے اس حادثے میں کسی ذمہ داری سے انکار کیا گیا ہے۔
بوئنگ نے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں مدد فراہم کر رہا ہے، اور جی ای نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ حادثہ ٹاٹا گروپ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، جو ایئر انڈیا کے کنٹرول میں آنے کے بعد اسے بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حادثہ کی تحقیقات اور تفتیشی عمل:
بھارتی وزارت شہری ہوا بازی کے تحت کام کرنے والی اے اے آئی بی اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
حادثے کے بعد، برآمد شدہ بلیک باکس سے اہم معلومات حاصل کی گئیں،
جن میں کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر شامل ہیں۔
اب بھی، اس واقعے کی اصل وجوہات اور پائلٹ کے کردار پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
مجموعی طور پر، یہ حادثہ ہوابازی کی صنعت میں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے،
اور حکام اس کی مکمل رپورٹ اور وجوہات جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔