تازہ ترینرجحانصحت

پاکستان میں پہلی بار مقامی بایومالیکیول سے اینٹی ریبیز ویکسین تیار

شیئر کریں

پاکستان میں طبی تاریخ میں اہم پیش رفت: پہلی مقامی انسانی اینٹی ریبیز ویکسین کی تیاری مکمل:

پاکستان کے صحت کے شعبہ میں ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا گیا ہے، جب ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز

(ڈی یو ایچ ایس) نے مقامی سطح پر انسانی اینٹی ریبیز ویکسین کی لیب اسکیل فارمولا تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی ہے، جو ملک کو کتوں کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے خود کفیل بنائے گی۔

ملکی بایولوجیکل مالیکیول سے تیار کی گئی پہلی ویکسین:

فارماسیوٹیکل ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ یہ ویکسین ملکی سطح پر حاصل شدہ بایولوجیکل مالیکیول سے تیار کی گئی ہے،

جو کہ پاکستان کی صحت اور سائنسی ترقی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔

یہ اہم منصوبہ ورلڈ بینک کی معاونت سے مکمل ہوا، جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اس کی عملی شکل دی ہے۔

مقامی ویکسین کا آغاز: ’Dow Rab‘ سے خود انحصاری کی جانب سفر:

گزشتہ سال، یونیورسٹی نے چین سے درآمد شدہ خام مال سے ’Dow Rab‘ کے نام سے

اینٹی ریبیز ویکسین کی تجارتی پیداوار شروع کی تھی۔ اب، اس ادارے نے اپنی مقامی بایو مالیکیول تیار کی ہے،

جس سے مستقبل میں ملک میں ویکسین کی پیداوار میں خود کفالت ممکن ہوگی۔

اس سے پاکستان کو اربوں روپے کی درآمدی ویکسین پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔

لیبارٹری سے کلینیکل ٹرائلز تک: اہم مرحلہ:

لیبارٹری سطح پر کامیابی کے بعد، اب اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے کا آغاز ہوگا،

تاکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈراپ) سے منظوری حاصل کی جا سکے۔

اس سے ملک میں ویکسین کی مقامی پیداوار اور استعمال کو مزید فروغ ملے گا۔

پاکستان کی موجودہ ویکسین صورتحال اور چیلنجز:

یونیورسٹی آف کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز

(آئی سی سی بی ایس) میں حالیہ تقریب کے دوران، میکٹر فارما کے ڈائریکٹر کوالٹی آپریشنز و بایوٹیک،

فاروق مصطفیٰ نے بتایا کہ پاکستان مکمل طور پر درآمدی ویکسینز پر انحصار کرتا ہے،

جنہیں جی اے وی آئی، یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کی معاونت سے فراہم کیا جاتا ہے۔

یہ سالانہ تقریباً 26 ارب روپے کی لاگت سے آتی ہے۔

آئندہ چیلنجز اور خود کفالت کا موقع:

لیکن جی اے وی آئی کی یہ معاونت 2031 میں ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد پاکستان کو ویکسین کی

درآمد پر سالانہ 100 ارب روپے خرچ کرنا پڑیں گے، جو موجودہ بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے۔

یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو اپنے صحت نظام کو مضبوط بنانے

اور ویکسین سازی میں خود کفالت حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ملا ہے۔

موجودہ کمزوریاں اور مستقبل کے امکانات:

فاروق مصطفیٰ کے مطابق،

پاکستان میں اب تک کسی بھی ویکسین کی خود ساختہ تیاری کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ اور تجربات کا فقدان ہے۔

ملک میں ویکسین کے
کلینیکل ٹرائلز
سیڈ بینکس
اور جدید ریگولیٹری گائیڈ لائنز کی کمی ہے،

جس کی وجہ سے مقامی ویکسینز کو مارکیٹ تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

تاہم، یہ کامیابی اس سمت میں ایک اہم قدم ہے،

جو آئندہ ملک میں ویکسین سازی کے شعبہ کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار کرے گی۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button