
اسلام آباد: حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوام کے لیے مراعات کا پیکیج تیار کرلیا۔
رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں اصلاحات کا منصوبہ
وزارت ہاؤسنگ کی 11 رکنی ٹاسک فورس نے 40 سے زیادہ اہم سفارشات و تجاویز کی تکمیل کردی ہے۔
ان سفارشات کے تحت رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوام کو مختلف مراعات فراہم کرنے کے لیے ایک مخصوص پیکیج تیار کیا گیا ہے۔
حکومت کا ٹیکسوں پر نظر ثانی کا فیصلہ
حکومت نے پراپرٹی اور ہاؤسنگ کے شعبے میں گزشتہ بجٹ کے دوران عائد کیے گئے
ٹیکسوں پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ
اس شعبے کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبہ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں 11 رکنی ٹاسک فورس کی سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کی گئی ہیں۔
وزیراعظم کا اہم اجلاس
وزیراعظم نے ان سفارشات پر فیصلہ کرنے کے لیے 3 فروری کو ایک اہم اجلاس طلب کیا ہے۔
مختلف تجاویز جو وزیراعظم کو پیش کی گئیں
وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا ہے کہ رہائشی گھروں کی تعمیر کے لیے 3 منزلیں بنانے کی اجازت دی جائے۔
مزید برآں، پہلی بار گھر خریدنے پر پوری طرح ٹیکس کی چھوٹ دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
ساتھ ہی، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں میں تبدیلی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
ٹیکس میں کمی کی تجویز
پراپرٹی فروخت کرنے پر ٹیکس کو 4 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کرنے کی تجویز
خریدار کے لیے ٹیکس کو 4 فیصد سے گرا کر 0.5 فیصد کرنے کی تجویز
پراپرٹی کی خریدوفروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارش
اور کم آمدنی والے افراد کے لیے ہاؤسنگ سبسڈی کی فراہمی شامل ہے۔
ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کر کے 4 سے 4.5 فیصد تک لانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی تبدیلی
یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو وزارت داخلہ کے بجائے وزارت ہاؤسنگ کے تحت کیا جائے۔
اسی طرح، گھروں کے لیے آسان قرضہ اسکیم کو بحال کرنے
اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوامی اور نجی شراکت داری کی سہولت فراہم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
قرض دینے کی مدت میں اضافہ
وزیراعظم کو یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ گھروں کی تعمیر کے لیے 5 سے 20 سال کی مدت کے لیے قرضے فراہم کیے جائیں۔
علاوہ ازیں، ہاؤسنگ کے لیے قابل ٹیکس آمدن کی حد 5 کروڑ روپے تک کرنے
اور ہاؤسنگ کے لیے 5 کروڑ روپے تک ٹیکس کی چھوٹ دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔