بزنستازہ ترین

چائے کی درآمد پر تمام ٹیکس استثنیٰ ختم کی جائے، ٹی ایسو سی ایشن

حکومت چائے کا شمارعام غذا کے طور پر کرے، چیئرمین امان پراچہ، شعیب پراچہ، ذیشان مقصود

Spread the love

کراچی ( کامرس رپورٹر) حکومت کے اقدامات اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے باعث چائے کی اسمگلنگ میں کمی ہوئی لیکن ناجائز منافع خور ایس آر او 450میں ری ایکسپورٹ کے نام پر ٹیکس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برآمد کرنے کی بجائے پورے ملک میں کھلے عام چائے فروخت کررہے ہیں۔

جس سے محصولات میں کمی ہو رہی ہے اور کاروبار چند افراد تک محدود ہوگیا ہے ،اس طرح نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ قانونی طور پر درآمد کنندہ شدید مالی خسارے کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان ٹی ایسو سی ایشن کے چیئرمین محمد امان پراچہ، سابق چیئرمین شعیب پراچہ اور سینئر وائس چیئرمین، ایف پی سی سی آئی کی کمیٹی برائے ٹی ٹریڈ کے کنوینئر ذیشان مقصود نے صحافیوں سے خصوصی گفتگو میں کیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ چائے کو 12ویں شیڈول کے ٹیبل 2میں شامل کیا جائے اور لگژری کی بجائے عام غذا میں شمار کیا جائے۔ درآمد میں تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے تاکہ مسابقت قائم ہو اور تمام درآمد کنندہ گان کو یکساں مواقع میسر آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے بعد غیر قانونی تجارت کرنے والوں نے آزاد کشمیر سمیت دیگر ٹیکس استثنیٰ والے علاقے اور ری ایکسپورٹ کے پرمٹ کے ذریعہ ناجائز منافع حاصل کرنا شروع کردیا۔

اس اقدام کے باعث چائے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور غریب کو میسر ایک سستی غذا بھی اس کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے، موجودہ مہنگائی کے دور میں غریب دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل نہیں ایسے میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو چائے روٹی سے ہی دن بھر گزارا کرتے ہیں۔

تاہم ایس آر او 450اور ایس آر او 104کے ذریعہ غریب سے یہ سہولت بھی چھینی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ ایس آر اوز میں چائے کو لگژری آئٹم میں شمار کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امان پراچہ نے بتایا کہ گزشتہ سال پاکستان میں 25کروڑ کلو چائے امپورٹ کی گئی ہے جس کی مالیت 50کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

جبکہ پاکستان ٹی ایسو سی ایشن کے 150ممبران 25سے 30ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ٹی ایسو سی ایشن کے سابق چیئرمین شعیب پراچہ کا کہنا تھا کہ پاکستان چائے استعمال کرنے والا سب سے بڑا صارف ہے جبکہ امریکہ بھی اسی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے لیکن وہ درآمدی چائے کو پروسیس کرکے برآمد کرتا ہے۔

وائس چیئرمین ذیشان مقصود نے کہا کہ چند منافع خوروں نے آزاد کشمیر اور انڈسٹریل زون میں جگہ لے کر ری ایکسپورٹ کے نام پر حکومت سے اجازت حاصل کرتے ہیں اور درآمدی چائے کو پراسیس کرکے برآمد کرنے کی جگہ مقامی مارکیٹ میں فروخت کرکے ٹیکس چوری کر رہے ہیں، کسٹم حکام کو اندازہ نہیں ہوتا کہ جو چائے برآمد کی گئی ہے وہ درااصل ملک میں ہی کھلے عام فروخت کردی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں متعلقہ افسران سے متعدد مذاکرات کئے اور تحریری طور پر بھی چیئرمین ایف بی آر کو آگاہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائے کے درآمد کنندہ گان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں تو حکومت کو اس شعبہ سے ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button