پاکستانتازہ ترینرجحان

حکومتِ پاکستان نے تمام سرکاری یوٹیلٹی اسٹورز بند کر دیے

شیئر کریں

پاکستانی حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش کا اعلان، سبسڈی پر مبنی نظام کا خاتمہ!

حکومتِ پاکستان نے جمعرات کو ملک بھر میں تمام یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے،

جس سے دہائیوں سے جاری سبسڈی اسکیم پر مبنی ریٹیل نظام کا رسمی طور پر خاتمہ ہو گیا ہے۔

بزنس ریکارڈر کو موصول ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق، حکومت کی ملکیتی یوٹیلٹی اسٹورز

کارپوریشن (یو ایس سی) نے 31 جولائی 2025 سے اپنے تمام آؤٹ لیٹس کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ 31 جولائی سے اسٹورز پر خرید و فروخت کا عمل معطل کر دیا جائے گا،

مگر اسٹاک کو گوداموں میں منتقل کرنے، اشیاء واپس کرنے اور انوینٹری حوالگی جیسے انتظامی امور کی اجازت برقرار رہے گی۔

اس فیصلے کے خلاف گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین نے احتجاج کیا،

جہاں مظاہرین نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ جب تک ان کے

مطالبات پورے نہیں ہوتے، وہ دھرنا جاری رکھیں گے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسٹورز کی بندش مہنگائی

میں اضافے کا سبب بنے گی اور ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ ایک احتجاجی کارکن نے کہا کہ

اس اقدام سے 26 کروڑ عوام مہنگائی کے مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جائیں گے۔

گزشتہ سال اگست 2024 میں یہ خبریں سامنے آئیں تھیں کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس وقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین سینیٹر عون عباس نے کہا تھا کہ

اس اقدام سے تقریباً سات ہزار ملازمین بیروزگار ہو سکتے ہیں،

اور حکومت کی جانب سے کوئی متبادل روزگار یا گولڈن ہینڈشیک کی وضاحت نہیں دی گئی۔

بعد ازاں ستمبر 2024 میں وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ

حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ صرف کارپوریشن کی تنظیم نو اور شفافیت کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔

یوٹیلٹی اسٹورز کا قیام جولائی 1971 میں عمل میں آیا تھا، جب اسے اسٹاف ویلفیئر آرگنائزیشن سے منتقل کیا گیا۔

اس کے بعد سے ملک بھر میں تقریباً 4,000 اسٹورز پر مشتمل ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا گیا،

جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقات کو کم نرخوں پر بنیادی اشیائے ضروریہ فراہم کرنا

اور عوام کو ایک قابلِ اعتماد خریداری کا ماحول فراہم کرنا تھا۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button