عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم‘ ادویہ کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ: میڈیکل ڈیوائسزپر بھی 70 فیصد ٹیکس عائد
عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم
مہنگائی کم کرنے کی دعویدار حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرا دیا۔
ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح کئی سالوں کی کم ترین سطح پر لے آنے کے دعوے کرنے والی حکومت کے ایک اقدام کی وجہ سے ملک میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔
رپورٹس کے مطابق ادویہ ساز کمپنیوں کو اختیار دینے اورقیمتوں پر سرکاری کنٹرول کا نظام ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کی وجہ سے متعدد ادویات 200 سے 300 فیصد سے زائد مہنگی ہو گئی ہیں۔
میڈیکل ڈیوائسز پر بھی 70 فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا، کمپنیوں نے ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا۔
بتایا گیا ہے کہ دوائیں ڈی ریگولیٹ کرکے مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کے حکومتی فیصلے کا خمیازہ عوام بھگتنے پر مجبور ہو گئے۔
ڈی ریگولیشن سے انسولین، ٹی بی، کینسر اور دل کے امراض کی دوائوں کی قلت تو ختم ہوگئی لیکن نرخ آسمان پر پہنچ گئے۔
فارما ایڈووکیٹ محمد نور مہر کے مطابق
فارما ایڈووکیٹ محمد نور مہر کے مطابق ادویات کی مہنگائی کے حساب سے 2024 بدقسمت ترین رہا۔
ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول ختم
حکومت نے ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول اور نظام ہی ختم کردیا
پاکستان میں 80 ہزار سے زیادہ ادویات مہنگی ہوگئیں اور میڈیکل ڈیوائسز پر 65 سے 70 فیصد ٹیکس لگایا گیا۔
پاکستان 960 ارب کی فارما مارکیٹ ہے جس پر نئے ٹیکسز کا اضافی بوجھ بھی عوام ہی کو ڈھونا پڑ رہا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں ہر ہفتے، 15 اور 30 روز کے وقفے سے رد و بدل کیا جارہا ہے۔
کون کون سے امراض کی دوائیاں مہنگی
شوگر، بلڈ پریشر، امراض قلب، ذہنی صحت کی ادویات کے ساتھ ساتھ بخار، اینٹی بایوٹکس بھی مہنگی ہوگئیں۔
میڈیکل اسٹور مالکان کے مطابق
میڈیکل اسٹور مالکان کے مطابق پہلے دو ہزار روپے والا کورس اب 6 سے 7 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن رکن
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رکن ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ناجائز منافع کمانے کیلئے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔
کمپنیوں نے اختیار ملنے کے بعد ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ کیا، سفید پوش افراد کیلئے ادویات لینا ناممکن ہوگیا ہے۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔