بزنستازہ ترینرجحان

وفاقی حکومت کا نیشنل ایگری کلچر ایمرجنسی پروگرام کا اعلان خوش آئند ہے، وحید احمد

کراچی (کامرس رپورٹر) پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے وفاقی بجٹ میں زراعت کے لیے 12 ارب روپے کے فنڈز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے زرعی ترقی کا وفاقی بجٹ 50ارب روپے تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے خود اعتراف کیا کہ پاکستان کو غذائی شعبہ میں خسارے کا سامنا ہے اور خوراک کا بڑا حصہ درآمد کیا جارہا ہے جو مہنگائی میں اضافہ کے ساتھ زرمبادلہ پر بھی بوجھ بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں زرعی شعبہ کو جدید بنانے کے لیے فارمرز کو ان پٹ یعنی ادویات، کھاد، زرعی مشینری آلات کے لیے سپورٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت نے تسلیم کیا کہ مہنگائی پر قابو پانے اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے زرعی شعبہ کو جدید خطوط طر استوار کرتے ہوئے پیداوار بڑھانا ہوگی کیونکہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر خوراک درآمد کررہا ہے اور پاکستان کو خوراک کے شعبہ میں خسارے کا سامنا ہے یعنی ہم اپنی ضرورت کا غلبہ پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔

حکومت نے نیشنل ایگری کلچر ایمرجنسی پروگرام کا بھی اعلان کیا جو خوش آئند امر ہے۔ زرعی شعبہ کی ترقی کا بجٹ کم ازم کم 50 ارب ہونا چاہئیے جسے آئندہ تین سال میں 100 ارب روپے تک بڑھانے کی ضرورت یے۔

پاکستان میں خوراک کی خودکفالت کے لیے ضروری ہے کہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر توجہ دی جائے اجناس پھل تیل پیدا کرنے والے بیجوں اور کپاس کی ایسی نئی اقسام تیار کی جائیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور جن کی فی ایکڑ پیداوار زیادہ ہو اسی طرح آب پاشی کے لیے بھی جدید طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔

وحید احمد نے کہا کہ وفاقی حکومتوں سے زیادہ صوبائی حکومتوں کو زراعت کی بہتری کے لیے بجٹ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ 18 وی ترمیم کے بعد زراعت کی بہتری صوبوں کی زمہ داری ہے وفاق نے نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام تشکیل دیا ہے اس میں صوبوں کی شراکت ضروری ہے تاکہ اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرز پر زراعت کے شعبہ میں ایک قومی ریسرچ کونسل بنائی جائے تاکہ صوبوں یا وفاق کی سطح پر زراعت کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کو تمام صوبوں تک پہنچایا جاسکے اور بلوچستان یا کے پی کے جیسے صوبے جن کے پاس ریسرچ کے لیے تکنیکی مہارت یا وسائل کی قلت ہے وہ بھی جدید تحقیق سے فائدہ اٹھاسکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button