پاکستانتازہ ترینرجحان

سینیٹ: انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2025 منظور

شیئر کریں

سینیٹ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 منظور کر لیا، احتجاجی واک آؤٹ!

سینیٹ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 کی منظوری دے دی ہے، جسے وزیر مملکت برائے داخلہ

طلال چوہدری نے پیش کیا تھا۔ اس دوران جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے چند ترامیم کی تجویز دی،

جنہیں ایوان نے مسترد کر دیا۔ منظوری کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان نے احتجاجاً ہاؤس سے واک آؤٹ کیا۔

سینیٹ اجلاس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر نے کی،

جس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس موقع پر اپوزیشن نے احتجاج اور شور شرابہ کیا۔

جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل میں ترامیم کی تجاویز دیں، جنہیں ایوان نے مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ترمیم کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بل بھیجنے کی تحریک موجود ہے۔

کامران مرتضیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم

دہشتگردوں کے حامی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر یہ ترمیم کمیٹی میں بھیجی جاتی تو کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا،

اور یہ آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصل سبزواری کی بات سے ظاہر ہوتا

ہے کہ وہ بے بسی میں ووٹ دے رہے ہیں، اور مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر کے بعد دہشت گرد ان کے

گاؤں گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم ہمارے خلاف لاگو ہوگی، مگر ہم تاریخ کے صحیح راستے پر ہیں۔

اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ہم اس قانون میں اسلامک ٹچ نہیں دینا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہم نے کمپرومائز کیا، جس کے نتیجے میں دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی اختلاف رائے پر قانون کا اطلاق نہ کیا جائے

اور لاپتہ افراد کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔

انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کے مندرجات کے مطابق!

یہ قانون تین سال کے لیے نافذ العمل رہے گا، جس کے دوران کسی بھی مشتبہ شخص کو تین ماہ تک
حراست میں رکھا جا سکے گا۔

اس ترمیم کے تحت سیکشن 11 فور ای میں تبدیلی کی گئی ہے،

جس کے مطابق مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شخص کو حفاظتی حراست میں رکھ سکیں گی۔

یہ قانون
ملکی سلامتی
دفاع
امن و امان
اغوا برائے تاوان
اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کی حراست کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

مزید برآں، حراست کی مدت آرٹیکل 10 کے تحت بڑھائی جا سکتی ہے، اور حراست میں رکھے گئے

شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔

اس ٹیم میں ایس پی رینک کے
پولیس افسر
خفیہ ایجنسیاں
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مسلح افواج شامل ہوں گے،

اور کسی بھی شخص کو ٹھوس شواہد کے بغیر حراست میں نہیں رکھا جا سکے گا۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button