
افغانستان میں حالیہ زلزلہ: تباہی اور انسانی بحران کا سامنا!
افغانستان میں حالیہ زلزلہ کو ملک کی سب سے بدترین قدرتی آفات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے،
جس کے نتیجے میں 800 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کم از کم 2,800 زخمی ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق، زلزلے کی شدت 6 ریکارڈ کی گئی، جو نصف شب کو صوبہ کنڑ اور ننگرہار میں تباہی مچا گیا۔
یہ زلزلہ دس کلومیٹر گہرائی میں آیا، جس سے کئی دیہات مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
طالبان حکام کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق، سب سے زیادہ جانی نقصان کنڑ میں ہوا،
جہاں 610 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ ننگرہار میں بھی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ریسکیو ٹیموں کو رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے
کیونکہ وہاں موبائل نیٹ ورک منقطع ہے اور کچے گھروں کی بڑی تعداد گر چکی ہے۔
وزارتِ صحت کے ترجمان شرافت زمان نے عالمی برادری سے فوری امداد کی اپیل کی ہے،
کیونکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔
فوجی ریسکیو ٹیموں کو متحرک کر دیا گیا ہے، اور اب تک 40 پروازوں کے ذریعے 420 زخمی اور لاشیں منتقل کی جا چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں کہا کہ یو این مشن متاثرہ علاقوں میں
امداد فراہم کرنے کی تیاریاں مکمل کر رہا ہے۔ چین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کی ضروریات کے
مطابق امداد فراہم کرے گا، مگر افغان وزارتِ خارجہ کے مطابق،
اب تک کسی بھی غیر ملکی حکومت نے براہِ راست امداد کے لیے رابطہ نہیں کیا ہے۔
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ تیسرا بڑا ہلاکت خیز زلزلہ ہے۔
2022 میں پکتیکا اور خوست میں آنے والے 6.1 شدت کے زلزلے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک نظرانداز انسانی بحران کا شکار ہے،
جہاں نصف سے زیادہ آبادی فوری امداد کی محتاج ہے، لیکن عالمی فنڈنگ میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا جغرافیہ اسے زلزلوں کے خطرات سے دوچار کرتا رہتا ہے،
خاص طور پر ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں، جہاں بھارتی اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس آپس میں ٹکراتی ہیں۔