چین ہیومن میٹا نیومووائرس (ایچ ایم پی وی) کے انفیکشن کے بڑھتے ہوئے کیسز نے زیادہ تر میڈیا توجہ حاصل کی ہے، لیکن ممتاز سائنسدانوں اور صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت تک یہ کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکا ہے۔
چینی صحت حکام کا بیان
چینی صحت کے حکام نے پچھلے مہینے 14 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں میں ہیومن میٹا نیومووائرس (ایچ ایم پی وی) کے مثبت ٹیسٹ میں اضافے کا اعلامیہ کیا۔
یہ اعلان سانس کے دیگر وائرسز کے موسم کے دوران ہونے والی ایک وسیع تر معلوماتی اپ ڈیٹ کا حصہ تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل خبریں اور تصاویر
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز نے چینی ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریضوں کی موجودگی کو ظاہر کیا۔
جس سے دیگر ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ اور کووڈ کی طرح کی صورت حال کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ تشویش اس وقت سامنے آئی ہے جب چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس انفیکشن کی پہلی بار رپورٹ ہونے کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔
البتہ، ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ایچ ایم پی وی کو نئی بیماری نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ عالمی صحت کے لیے کوئی غیر معمولی خطرہ بھی نہیں ہے۔
ایچ ایم پی وی (HMPV) کیا ہے؟
2001 میں ہالینڈ کے سائنسدانوں کی جانب سے دریافت کردہ یہ وائرس عموماً نزلہ زکام کی علامات پیدا کرتا ہے۔
مگر نومولود بچے، بوڑھے افراد اور صحت کے مسائل کے شکار لوگوں میں شدید بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے کہا کہ یہ وائرس بچوں اور بوڑھوں میں سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
جس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
امپیریل کالج لندن کے پروفیسر جان ٹریگوننگ نے کہا کہ ایچ ایم پی وی کی علامات دیگر سانس کی بیماریوں جیسے آر ایس وی اور فلو سے ملتی جلتی ہیں۔
انہوں نے احتیاطی تدابیر جیسے ہاتھ دھونا اور بیمار ہونے کی صورت میں گھر پر رہنے کی اہمیت پر زور دیا۔
یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا کے پروفیسر پال ہنٹر نے یہ بھی بتایا کہ تقریباً ہر بچہ پانچ سال کی عمر تک ایچ ایم پی وی کا سامنا کرتا ہے۔
یہ علامات عام طور پر نزلہ زکام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جن کا دورانیہ دو سے پانچ دن ہوتا ہے۔
شدید کیسز نایاب ہیں، مگر کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے خطرہ موجود ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر صحت سے متعلق کوئی ہنگامی صورت حال نہیں
عالمی صحت کی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے ایچ ایم پی وی کے انفیکشن میں اضافے کو عالمی صحت کی ہنگامی صورت حال قرار نہیں دیا۔
البتہ یہ ادارہ صورتحال پر بھرپور توجہ دے رہا ہے۔
فلنڈرز یونیورسٹی کی وائرولوجی کی ماہر پروفیسر جل کار کا کہنا ہے کہ ایچ ایم پی وی کی وبا کوویڈ-19 سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔
کیونکہ کورونا وائرس انسانوں میں نیا تھا اور جانوروں سے منتقل ہوا تھا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ایچ ایم پی وی واقعی لوگوں میں شدید بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔
لیکن چین میں اس کے بڑھتے ہوئے کیسز کا موجودہ منظرنامہ سارس کوو-ٹو سے متوقع خطرات سے کافی مختلف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سائنسی برادری کے پاس ایچ ایم پی وی کی جینیاتی مختلف رنگتی، وبائیات، اور پھیپھڑوں پر اثرات کے بارے میں خاطرخواہ معلومات موجود ہیں۔
اس کے لئے لیباریٹری ٹیسٹنگ کے مستحکم طریقے بھی موجود ہیں۔
یہ سب کچھ کوویڈ-19 کی وبا سے بالکل الگ ہے۔
جہاں نئی پھیپھڑوں کی بیماری کی نوعیت اور اس کے پھیلاؤ کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ ابتدائی تشخیصی ٹیسٹ بھی دستیاب نہیں تھے۔
اس وقت ایچ ایم پی وی کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے لیکن کچھ تیاری کے مراحل میں ہیں۔
واضح رہے کے اس وقت ایچ ایم پی وی کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے لیکن کچھ تیاری کے مراحل میں ہیں۔
تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔