بزنستازہ ترینرجحان

کاروباری اداروں نے 15 روز میں بینکوں کو 440 ارب روپے واپس کر دیئے

شیئر کریں

مالی سال کی پہلی ششماہی میں نجی شعبے کی بینکوں کو ادائیگیاں

رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں لیکویڈیٹی کے بڑھتے ہوئے بہاؤ کے نتیجے میں

نجی شعبے نے صرف دو ہفتوں کے اندر بینکوں کو 440 ارب روپے کی ادائیگی کر دی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 کی آخری سہ ماہی میں جو رقم بینکوں میں ڈالی گئی تھی،

وہ واپس آنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) پر 15 فیصد اضافی ٹیکس کا خدشہ ختم ہونا ہے۔

قرضوں میں کمی

17 سے 31 جنوری کے دوران نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں 440 ارب روپے کی کمی آئی،

جس کے بعد یہ رقم 13 کھرب 98 ارب روپے سے کم ہو کر 958 ارب روپے رہ گئی۔

یہ کمی اس اعلان کے باعث ہوئی ہے کہ حکومت نے 31 دسمبر 2024 تک ان بینکوں پر

15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کا اے ڈی آر 50 فیصد سے کم ہے۔

شرح سود میں کمی کے اثرات

بینکاری کے ماہرین کے خیال میں پالیسی ریٹ میں کمی وہ عنصر تھا جس نے نجی شعبے کی طرف لیکویڈیٹی کے بہاؤ کو بڑھایا۔

تاہم، جون 2024 میں شرح سود میں 1000 بیسز پوائنٹس کی بڑی کمی کے باوجود، قرضوں کی طلب میں اضافہ نہیں ہوا۔

صنعت و زراعت میں سست روی

نجی شعبے کے سکڑتے ہوئے قرضے ماہرین کی اس سوچ کی نفی کرتے ہیں کہ کم شرح سود قرضوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔

صنعتی شعبے خاص طور پر ٹیکسٹائل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکسوں اور بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے

کاروبار میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، جس سے کئی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں۔

بینکاری کے قرضوں میں تنوع

17 جنوری تک روایتی بینکوں کے نجی شعبے کے قرضے میں زبردست کمی آئی ہے، جو 722 ارب 60 کروڑ روپے سے کم ہو کر 325 ارب روپے رہ گئی ہے۔

اسی طرح، اسلامی بینکوں کے قرضے بھی 66 ارب روپے کی کمی کے بعد 559 ارب 50 کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔

مستقبل کی توقعات

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ یہ ڈیزائن کردہ قرض تھا جس کا مقصد صرف ٹیکس بچانا تھا۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ اب بھی نجی شعبے کے لیے موقع موجود ہے،

کیونکہ سود کی شرح 12 فیصد ہو گئی ہے، لیکن سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات

اور خراب انٹرنیٹ خدمات نے نئی سرمایہ کاری کے راستے میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔

تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ڈے نیوز کو گوگل نیوز، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر فالو کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button