
کراچی میں جدید ایکوا کلچر پارک کا اعلان:
وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انور چوہدری نے کراچی کے کورنگی فش ہاربر میں ایک نئے اور جدید طرز کا ایکوا کلچر (آبی زراعت)
پارک قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً 3 ارب روپے لاگت آئے گی۔
اعلیٰ سطحی اجلاس میں منصوبہ بندی:
یہ اعلان ایک بلیو اکانومی کی ترقی سے متعلق ایک اہم اجلاس کی صدارت کے دوران کیا گیا،
جس میں
گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین نور الحق بلوچ، کورنگی فش ہاربر اتھارٹی
مرین فشریز ڈیپارٹمنٹ
اور بلوچستان چیمبر آف کامرس کے نمائندگان شریک تھے۔
منصوبے کی تفصیلات اور توقعات:
پروجیکٹ کا ڈھانچہ تقریباً 120 ایکڑ پر محیط ہوگا، جس سے سالانہ 360 سے 1,200 ٹن سمندری خوراک پیدا کی جا سکے گی۔
یہ پیداوار مختلف اقسام کی مچھلیوں اور فارمنگ کے طریقوں پر منحصر ہوگی۔
آمدنی کا اندازہ 7.2 لاکھ سے 72 لاکھ امریکی ڈالر سالانہ تک لگایا گیا ہے، جو مارکیٹ کی قیمتوں اور پیداوار پر منحصر ہے۔
بلیو اکانومی کا تصور:
ورلڈ بینک کے مطابق،
نیلی معیشت کا بنیادی مقصد سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ہے،
تاکہ اقتصادی ترقی، معیارِ زندگی میں بہتری اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں،
ساتھ ہی سمندری ماحول کو بھی محفوظ رکھا جائے۔
پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ کا کردار:
وفاقی وزیر جنید چوہدری نے اس منصوبے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت انجام دینے کی ہدایت دی
تاکہ آبی زراعت کو پائیدار انداز میں فروغ دیا جا سکے۔
زمین کے استعمال اور ماہرین کی رائے:
اجلاس میں بتایا گیا کہ ایکوا کلچر پارک کے لیے زمین کی قیمت کا تعین ایکسٹینسیو فارمنگ کے ماڈل کو
مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے تاکہ نجی سرمایہ کاروں کے لیے یہ ایک قابلِ استطاعت اور مؤثر سرمایہ کاری ہو۔
ماہرین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساحلی پانی آبی زراعت کے لیے انتہائی سازگار ہیں،
جو مختلف سمندری حیات کی فارمنگ کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
آئندہ اقدامات اور وسعت کا پلان:
وفاقی وزیر نے ہدایت دی کہ کورنگی فش ہاربر اتھارٹی آئندہ 10 دنوں میں منصوبے پر عملدرآمد سے
متعلق ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔ انہوں نے کامیاب ماڈل کو دُہرانے اور بلوچستان تک اس کی وسعت
دینے کا بھی عندیہ دیا تاکہ وہاں کے وسیع ساحلی علاقے سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔
تنظیمی روابط کو مضبوط بنانے کے اقدامات:
محمد جنید انور چوہدری نے ہدایت دی کہ میری ٹائم فشریز ڈیپارٹمنٹ کے سب آفس کو
گوادر پورٹ اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں منتقل کیا جائے،
تاکہ اداروں کے مابین تعاون کو بہتر بنایا جا سکے اور فیصلے جلدی کیے جا سکیں۔
پورٹ قاسم کی زمین الاٹمنٹ پر نظرثانی:
ایک اور اجلاس میں پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمین کی الاٹمنٹ اور لیز پالیسی کا جائزہ لیا گیا،
جس میں بتایا گیا کہ پاکستان سروے کو پی کیو اے کی ملکیتی زمین کی حد بندی کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
ماسٹر پلان کی نظرثانی بھی جاری ہے تاکہ
اسے قومی پورٹس ماسٹر پلان کے فزیبلٹی اسٹڈی سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
حکومت کا عزم اور مستقبل کے اقدامات:
وفاقی وزیر نے پائیدار سمندری ترقی کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ
آبی زراعت اور بندرگاہی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری خوراک کے
تحفظ
برآمدات میں اضافہ
اور ساحلی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
نتیجہ:
یہ اجلاس اور منصوبہ بندی حکومت کی سمندری ترقی کے حکمتِ عملی کا اہم ستون تصور کی جا رہی ہے،
جس کا مقصد
جدیدیت
ادارہ جاتی تعاون
اور نجی شعبے کی شمولیت کے ذریعے پاکستان کے ساحلی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔